ترجمہ: ”زمین پر چلنے والا کوئی ایسا جاندار نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو۔“ (ھود۔ 6) وہ کون ہے جو تم کو رزق پہنچاتا ہے‘ اگر اللہ اپنا رزق بند کرلے۔ (الملک۔ 12)
انداز کلام میں کیسا بڑا چیلنج دیا جارہا ہے جس کا آج تک مالک الملک کی بارگاہ میں کوئی جواب پیش نہ کرسکا۔ پس اللہ ہی کی ذات ہے جس کے علم میں سب کا حتیٰ کہ ایک ایک کیڑے مکوڑے کے کھانے اور اس کو سامان زیست پہنچانے کا بندوست ہے۔ اب اس حقیقت کو جاننے کے باوجود تم اگر روگردانی کرتے رہو کہ تمہارا کبھی محاسبہ نہ ہوگا کوئی جزا و سزا کا وقت نہیں آئے گا کوئی بازپرس نہ کرے گا تو یہ سخت نادانی ہے تم اس عالم تخلیق کو محض ایک ڈھونگ یا تماشا سمجھتے ہو۔
ترجمہ: ” اللہ ہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا‘ پھر تمہیں رزق دیا‘ پھر وہ تمہیں موت دیتا ہے پھر تمہیں زندہ کرے گا۔ (روم 40)
یعنی اللہ نے زمین سے تمہارے لیے رزق کے جملہ وسائل فراہم کردئیے اور ایسا نظام کردیا کہ رزق کی گردش میں سے ہر ایک کو حصہ ملتا رہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کی جانے والی دعا میں رزق کے مفہوم میں بمعنی پھل استعمال ہوا ہے۔ جہاں واضح ہوتا ہے کہ خداوند کریم کے ذمہ تمام مخلوق خدا کا رزق دینا ضروری ہے اب وہ دعا ملاحظہ فرمائیے جو انہوں نے رب العالمین کی بارگاہ میں مانگی تھی اور پھر اللہ تعالیٰ کے جواب پر بھی غور فرمائیے!
”اے میرے رب! اب شہر (مکہ) کو امن کا شہر بنادے اور اس کے باشندوں کو جو اللہ اور آخرت کو مانیں انہیں ہر قسم کے پھلوں کا رزق عطا فرما۔“
جواب دیا جاتا ہے رب العالمین کی جانب سے۔
”اور جو نہ مانے گا چند روزہ دنیا کی زندگی میں سامان (رزق) اس کو بھی دونگا مگر آخر کار اسے عذاب جہنم کی طرف گھسیٹوں گا اور وہ بدترین ٹھکانہ ہے۔ (البقر۔ 126)
ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے کہ دینے والا دینے کیلئے کوئینہ کوئی صورت نکال لیتا ہے مگر ان کو جو اس سے ڈرتے ہیں۔
ترجمہ: جو اللہ سے ڈرتے ہیں اللہ ان کیلئے مشکلات سے نکلنے کا کوئینہ کوئی راستہ پیدا کردے گا اور ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر ان کا گمان بھی نہیں ہوتا ہو۔ (الطلاق 3۔2)
انسان کا ہر عمل اس کے رزق پر اثر ڈالتا ہے
انسان کا ہراچھا برا عمل اس کے رزق پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اچھے عمل سے رزق بڑھتا ہے اور برے عمل سے گھٹتا ہے‘ اچھے برے اعمال رزق میں کمی بیشی کے اسباب ہیں یہ اسباب جب بھی اور جہاں بھی پائے جائیں گے ان کے نتائج ضرور سامنے آئیں گے یہ ایک بنیادی حقیقت ہے۔
روزی وہ ہے جو عزت سے ملے
دنیا میں رزق تو سب کو ملتا ہے مگر رزق کی دو قسمیں ہیں ایک وہ رزق جو آدمی عزت و ناموس بیچ کرلیتا ہے جس کے پیچھے بندہ بھاگتا ہے‘ محنت‘ مشقت کرتا ہے‘ رسوائی جھیلتا ہے تب جاکر ہاتھ آتا ہے اور وہ بھی تھوڑا تھوڑا یہ رزق مسلط ہے بندہ اس کے قبضے میں ہے اور مصیبت کا شکار رزق مسلط بندے کیلئے خدا کی طرف سے ابتلا اور آفت ہے۔
دوسرا رزق وہ ہے جو بندے کو آسانی اور سکون کے ساتھ مل جاتا ہے۔ یہ رزق خدا کی طرف سے نعمت ہے اور خود چل کر بندے کی طرف آتا ہے یہ رزق مسخر ہے اور یہی حقیقی روزی ہے اس میں انسان کیلئے خوشحالی بھی ہے اور عزت وتکریم بھی قرآن اسے رزق طیب اور رزق کریم کہتا ہے انسان کو چاہیے۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 427
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں